غصے کے صحت پر اثرات۔۔۔غصہ قابو کرنے کے صحت مند طریقے

Image
  غصے کے صحت پر اثرات۔۔۔غصہ قابو کرنے کے صحت مند طریقے غصہ ایک قدرتی انسانی جذبہ ہے۔ ہر انسان کبھی نہ کبھی غصے کا شکار ہوتا ہے، چاہے وہ مایوسی، ناانصافی یا دل دکھنے کی وجہ سے ہو۔ کبھی کبھار کا ہلکا غصہ فائدہ مند بھی ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ہمیں ایکشن لینے یا اپنا دفاع کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ لیکن اگر غصہ بار بار آئے یا بے قابو ہو جائے تو یہ ذہنی اور جسمانی صحت دونوں پر سنگین اثرات ڈال سکتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ صرف غصہ کرنے والے شخص کو ہی نہیں بلکہ اُس کے تعلقات، کام اور زندگی کے معیار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ غصے کے صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور اسے کنٹرول کرنا کیوں ضروری ہے۔ 1. جسم کا اسٹریس ریسپانس جب ہم غصہ کرتے ہیں تو جسم “فائٹ یا فلائٹ” موڈ میں چلا جاتا ہے۔ ایڈرینل گلینڈز ایسے کیمیکلز خارج کرتے ہیں جنہیں ایڈرینالین اور کارٹیسول کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم میں یہ تبدیلیاں آتی ہیں: دل کی دھڑکن تیز ہو جانا بلڈ پریشر بڑھ جانا سانس تیز ہو جانا پٹھوں میں کھنچاؤ پسینہ آنا یہ ردِعمل خطرناک حالات میں مددگار ہے، لیکن اگر یہ بار بار ہو تو ج...

مکاشفۃ القلوب دارالندوہ میں شیطان کا قریش کو مشورہ:

مکاشفۃ القلوب
دارالندوہ میں شیطان کا قریش کو 
مشورہ


ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے کہ جب قریشِ مکہ نے حضور ﷺ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم کو ہجرت کرتے

 اور متعدد قبائل کے لوگوں کو مسلمان ہوتے دیکھا تو انہیں یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں حضور ﷺ بھی ہجرت نہ فرما جائیں اور وہاں ایک زبردست جماعت اپنی حمایت میں تیار کرکے ہمیں شکست نہ دے دیں۔ چنانچہ یہ لوگ دارالندوہ میں جمع ہوئے۔ دارالندوہ، قصی بن کلاب کا مکان تھا۔ یہ دارالندوہ اس لیے کہلاتا تھا کہ یہاں قریش اپنے تمام اہم امور سرانجام دیتے اور منصوبے تیار کرتے تھے۔ اس دارالندوہ میں چالیس سالہ قریشی کے علاوہ کوئی اور شخص یا کم عمر قریشی داخل نہ ہو سکتا تھا۔

یہ سب لوگ ابوجہل کے ساتھ ہفتے کے دن جمع ہوئے، اس لیے ہفتے کو دھوکے اور فریب کا دن کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے ساتھ ابلیس بھی شریکِ مشاورت تھا۔ اس ملعون کے شامل ہونے کا واقعہ یوں ہے کہ جب قریشِ مکہ دارالندوہ کے دروازے پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک باوقار بوڑھا کھردرا سا کمبل اوڑھے کھڑا ہے۔ ایک روایت یہ ہے کہ طلسم کی ریشمی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ انہوں نے پوچھا: آپ کون ہیں؟ کہنے لگا: میں شیخِ نجدی ہوں۔ تم نے جو ارادہ کیا ہے، میں نے وہ سن لیا ہے اور میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہاری گفتگو سنوں اور مشورے اور نصیحتیں دوں۔ چنانچہ یہ سب لوگ اندر داخل ہوگئے اور باہم مشورہ ہونے لگا۔ ایک روایت ہے کہ سو (۱۰۰) آدمی تھے اور دوسری روایت میں ہے کہ پندرہ آدمی تھے۔

ابوالبختری (جو غزوۂ بدر کے دن مارا گیا) نے مشورہ دیا کہ محمد ﷺ کو لوہے کے ایک قلعے میں بند کر دو اور اس وقت کا انتظار کرو جب ان کا انجام بھی پہلے شعرا جیسا ہو جائے۔ شیخ نجدی نے کہا: یہ بات غلط ہے، بخدا اگر تم انہیں آہنی دروازے کے پیچھے بھی بند کر دو تو وہ وہاں سے نکل کر اپنے اصحاب کے ہاں پہنچ جائیں گے۔

ابوالاسود ربیعہ بن عمر العامری نے رائے دی کہ محمد ﷺ کو جلا وطن کر دو۔ یہ جہاں بھی جائیں، ہمیں کوئی پرواہ نہیں، بس ہمارے شہروں میں نہ رہیں۔ شیخ نجدی نے اس رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا: کیا تم نے محمد ﷺ کی اچھی باتیں، شیریں بیانی اور لوگوں کا ان پر پروانہ وار نثار ہونا نہیں دیکھا؟ اگر تم ان کو جلا وطن کرکے مطمئن ہو گئے تو یہ تمہاری سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ وہ کسی اور قبیلے میں چلے جائیں گے اور اپنی سحرالبیانی سے لوگوں کو اپنا فریفتہ بنا لیں گے، اور اپنے معتقدین کی ایک عظیم جمعیت کے ساتھ تم پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ تمہاری یہ شان و شوکت حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گی اور وہ تمہارے ساتھ جو چاہیں گے، کریں گے۔ کوئی اور رائے دو۔

ابوجہل نے کہا: میرے ذہن میں ایک ایسی رائے ہے جو کسی نے بھی نہیں دی۔ وہ یہ ہے کہ ہر قبیلے سے ایک صاحبِ حسب و نسب بہادر لیا جائے اور یہ سب مل کر یکبارگی محمد ﷺ پر تلواروں سے بھرپور وار کریں اور ان کو قتل کر دیں۔ ہماری بھی جان چھوٹ جائے گی اور بنو عبد مناف تمام قبائل کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں گے۔ وہ صرف دیت لے لیں گے جو تمام قبائل باہم ادا کر دیں گے۔ شیخ نجدی ملعون اس رائے پر پھڑک اٹھا اور کہنے لگا: "اب ہوئی بات!" چنانچہ متفقہ طور پر یہ رائے مان لی گئی اور سب لوگ گھروں کو چلے گئے۔

ادھر حضرت جبرائیل علیہ السلام حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: "اے اللہ کے نبی ﷺ! آج اس بستر پر استراحت نہ فرمائیں جس پر آپ ﷺ ہمیشہ آرام فرماتے ہیں۔" جب رات ہوئی تو قریش کے جوان کشانۂ نبوت کے گرد منڈلانے لگے اور اس وقت کا انتظار کرنے لگے کہ آپ ﷺ باہر آئیں اور وہ یکبارگی حملہ کر دیں۔ حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے بستر پر اس شب سلایا اور ان پر سبز رنگ کی ایک چادر ڈال دی، جو بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ اور عیدین کے موقع پر اوڑھا کرتے تھے۔



Comments

Popular posts from this blog

Sciatica کے علاج کے لیے بہترین جڑی بوٹیاں: کیا Sciatica کا علاج بغیر دوا کے کیا جا سکتا ہے؟

مکاشفتہ القلوب: جونہی حضور ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں غارِ ثور میں داخل ہوئے