مکاشفتہ القلوب: جونہی حضور ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں غارِ ثور میں داخل ہوئے
روایت ہے، جونہی حضور ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معیت میں غارِ ثور میں داخل ہوئے،
اللہ تعالیٰ نے غار کے دروازے پر ایک جھاڑی پیدا فرما دی جس نے ان حضرات کو کفار کی نظر سے اوجھل کر
دیا۔ حکمِ خداوندی سے مکڑی نے غار کے دہانے پر جالا تن دیا اور جنگلی کبوتروں نے وہاں گھونسلا بنا لیا۔ یہ
سب کچھ کفارِ مکہ کو غار کی تلاشی سے باز رکھنے کے لیے ہوا۔ ان دو جنگلی کبوتروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی
بے مثال جزا عطا کی کہ آج تک حرم میں جتنے کبوتر ہیں وہ انہی دو کی اولاد ہیں۔ جس طرح انہوں نے اللہ کے
نبی ﷺ کی حفاظت کی تھی، اللہ تعالیٰ نے بھی حرم میں ان کے شکار پر پابندی لگا دی۔
آئے۔ انہوں نے وہاں کبوتروں کا گھونسلا اور اس میں انڈے دیکھے تو واپس لوٹ گئے اور کہنے لگے: ہم نے
غار کے دہانے پر کبوتر کا گھونسلا اور اس میں انڈے رکھے دیکھے ہیں۔ اگر یہاں کوئی داخل ہوا ہوتا تو لازماً
کبوتر اُڑ جاتے۔ حضور ﷺ نے ان کی یہ باتیں سنیں اور سمجھ گئے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو ناکام واپس لوٹا
دیا ہے۔ کسی نے کہا: غار میں جا کر دیکھو تو سہی۔ جواب میں اُمیہ بن خلف نے کہا: غار میں گھسنے کی
ضرورت نہیں۔ تمہیں غار کے منہ پر مکڑی کا جالا نظر آ رہا ہے، یہ محمد ﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔
اگر وہ اس میں داخل ہوتے تو یہ جالا اور انڈے ٹوٹ جاتے۔
یہ حقیقت میں قومِ قریش کو مقابلے میں شکست دینے سے بھی بڑا معجزہ تھا۔ غور کیجیے، مطلوب کس طرح
کامیاب ہوا اور تلاش کرنے والے کس طرح گمراہ ہوئے۔ مکڑی نے جستجو کا دروازہ بند کر دیا اور غار کا دہانہ
ایسا بن گیا کہ سراغ رساں کے قدم لڑکھڑا گئے اور ناکام واپس لوٹے۔ اور مکڑی کو لازوال سعادت میسر آئی۔ ابنِ
نقیب نے خوب کہا ہے (اشعار):
ریشمی کیڑوں نے ایسا ریشم بنا جو حسن میں یکتا ہے
مگر مکڑی ان سے لاکھوں درجے بہتر ہے اس لیے کہ اس نے غارِ ثور میں حضور ﷺ کے اوپر غار کے دہانے
پر جالا بنا دیا تھا۔
بخاری و مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
نے فرمایا: جب ہم غار میں تھے تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: حضور! اگر یہ اپنے قدموں کی طرف
دیکھ لیں تو یقیناً ہمیں دیکھ لیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ابو بکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے
ساتھ تیسرا اللہ ہے؟
*****************
*****************
بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ جب ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا تو آپ ﷺ نے
فرمایا: اگر یہ لوگ اِدھر سے داخل ہوں گے تو ہم اُدھر سے نکل جائیں گے۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
غار میں نگاہ کی تو دوسری طرف ایک دروازہ نظر آیا جس کے ساتھ ایک بحرِ ناپیدا کنار بہہ رہا تھا اور اس غار
کے دروازے پر ایک کشتی بندھی ہوئی تھی۔
Comments
Post a Comment